This blog is in urdu language !!!
آہ!! مفتی فیض الوحید صاحب نور الله مرقده بھی داغ مفارقت دے گۓ۔
جو بادہ کش تھے پُرانے،وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی
مدتوں روتی رہیں گی بستیاں در بستیاں
روز کب پیدا ہوا کرتی ہیں ایسی ہستیاں
إنا للہ وإنا إليه راجعون
از قلم: مولانا توفیق احمد (کپوارہ کشمیر)
گذشتہ روز ملت اسلامیہ کے لیے ایک ایسا عظیم سانحہ لیکر آیا کہ جس کا زخم مٹنا آسان نہیں، حضرت کی وفات کی خبر دل پر بجلی کی طرح گری،اور وجود لرز اٹھا،
اللہ پاک نے یہ دنیا بنائی ہی ایسی ہے کہ اس میں خوشی،غم،راحت،تکلیف یہ سب چیزیں چلتی ہی رہتی ہیں، غم ابدی ہوتا ہے نا ہی خوشی، لہٰذا غموں کا پیش آنا یہاں کوئی اجنبی یا غیر معمولی بات نہیں۔
لیکن بعض صدمے ایسے ہوتے ہیں کہ انکا ایک عالمگیر اور گہرا اثر ہوتا ہے۔ جو بھلانے سے بھولتا نہیں۔
حضرت مفتی صاحب (جن کے نام کے ساتھ "رحمة الله عليه" لکھتے ہوئے دل پر ایک چوٹ لگتی ہے)،
اس وقت علم و فضل ،عبادت و ریاضت، زہد و تقویٰ، اور دیگر محاسن میں اپنی مثال آپ تھے، آپ کی ہر چیز ہی بے مثل تھی،
قرآن مقدس کے بہترین مفسر اور شارح ہونے کے ساتھ رحمت عالم (صلى الله عليه وسلم) کی سیرت کو قرآن کی زبان میں لکھنے کا انداز بھی منفرد تھا،ساتھ ہی ساتھ وقت کے پیشِ نظر چھوٹے بڑے رسالے،مضامین اور کچھ کتب بھی آپکی علمی خدمات میں شامل ہیں،
ایک نظر اگر درس و تدریس پے دوڑائی جائے خواہ کوئی بھی فن ہو اس میدان میں بھی آپ لاثانی تھے،
خطابت میں زبان کی روانگی، حافظے کی قوت بلکہ اس میدان میں آپ وقت کے حسن بصری اور عطا اللہ شاہ بُخاری تھے،
آپ کو اشعار سے ایک خاص شغف تھا اور مختلف زبانوں میں بے شمار اشعار خوب یاد تھے بیانات میں کبھی درس میں اور کبھی درس کے باہر نہ صرف شعر سناتے بلکہ شعر کی فنی باریکیوں پر بہترین تبصرہ فرماتے تھے،
اسی طرح بفضلہ تعالى آپ کے شب و روز کے تمام اوقات کسی نہ کسی کار خیر میں صرف ہوتے تھے اور جو وقت اتفاق سے خالی مِل جاتا وہ آپکے ہونٹوں کی حرکت ذکر و تلاوت کی گواہی دیتے تھے،
کن کن پہلوؤں کو بیان کروں،
علم ظاہری کے ساتھ ساتھ اللہ نے آپ کو علم باطنی سے بھی نوازا تھا، تہجّد کا بہت اہتمام فرماتے اور پھر ذکر کی مجالس کا تو اتنا معمول کہ کبھی کبھی سخت بیماری بھی آڑے نہ آ سکتی،
سنت سے اس قدر محبت کہ سخت گرمی میں بھی بڑی پگڑی کا اہتمام اور سفید لباس زیب تن ہوتا تھا،
باطل کسی بھی صورت میں ہو آپ اپنے منفرد انداز میں رد کیا کرتے تھے اور اہل بدعت کے فاسد نظریات کو اُمت کے سامنے لانا گویا آپکی زندگی کا ایک مقصد تھا وہ شاید آپکی سنت سے شدید محبت کی بنا پر تھا،
چھوٹوں پر مکمل شفقت بلکہ بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ چھوٹوں سے بھی ادب اور محبت سے ملنا بات کرنا۔۔،
طلباء پر اتنی شفقت تھی کہ ایک مرتبہ ایک نجی مجلس میں قسم اٹھا کر کہا "مجھے اپنے حقیقی بچوں سے کئی زیادہ تم سے الفت و محبت ہے، تم ہی ہمارا سرمایا ہو"۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ عوام ہوں یا خواص حضرت کا ہر ایک سے ایسا رویہ تھا کہ ہر کوئی یہ کہتا اور سوچتا ہے کہ انکا مجھ ہی سے زیادہ تعلق تھا؛؛
یہ تو کچھ ہی پہلو ہیں کاش الفاظ ساتھ دیتے واللہ اور بھی کئی باتیں تھی،
جن حضرات کی زندگیاں حضرت کے دائیں بائیں گزری وہ تو کیا کچھ نہیں بتائیں گے؛؛
حضرت مفتی صاحب رحمه الله کا سانحہ وفات ادارے کے لیے ہی نھیں بلکہ پورے ملت اسلامیہ کے لے ایک بہت بڑا نقصان ہے ،اول اس لیے کی آپ کا فیض اب روز بہ روز بڑھ رہا تھا،اور دوسرے اس لیے کی ایسے اللہ والے بزرگوں کا وجود ہی نہ جانے کتنے فتنوں کے لیے آڑے ہوتا ہے۔۔
الهم لا تحرمنا اجره ولا تفتنا بعده؛؛
(وقت تدفین)سورج غروب ہو رہا تھا اس دنیا میں بقا کسی کو نہیں ہم میں سے ہر ایک کو اسی منزل کی اور جانا ہے لیکن مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنے فیوض کا ایک سمندر چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں؛؛
اللہ ہمیں بھی انکے فیوض سے استفادے کی توفیق عطا فرمائے،،
الهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه...